شجرہ معرفت الہی و حقیقت روح و صراحت عالمہائے ظاہری و باطنی و طریقہائے تصوف متعلق نور ایمان
سید اکرام حیدر ترمذی نقشبندی کے کاغذات کا کلیکشن. سنہ 1880-1890
1. اللہ تعالٰی ازلی و ابدی، قیود زمان و مکاں سے مبرا
1.1 خدا خود آیندہ، موجود بالذات
1.2 واجب الوجود، واجب بالذات
2. قدرت کاملہ
3. کن
پانی، ہوا، عرش، کرسی، لوح، قلم، تقدیر، ایام، عالم، روح، مادہ
3.1 عالمہائے صراحت
عالم جبروت، عالم ملکوت، عالم لاہوت، عالم ناسوت، عالم برزخ (صغریٰ و کبرا)، عالم روح، عالم امکاں، عالم جسم، عالم زات
3.2 ذکر و شغل
3.2.1 صراحت نور ایمان
عین الیقین، حق الیقین، علم الیقین، جہل الیقین (کافر)
3.2.2 طریقہائے فنا
فنا فی اللہ، فنا فی الرسول، فنا فی الشیخ
3.3 صراحت تصوف
3.3.1 کمالات و کرامات (صوفی)
جمالی (نسجر و رحوع خلق؟؟ ) ، جلالی
3.3.2 اہل شہود
ہمہ از اوست
3.3.3 اہل وجود
ہمہ اوست
3.4 صراحت روح (قل الروح من امر ربیی)
3.4.1 ااقسام روح
سیلانی، مقامی، ملکوتی، شیطانی
3.4.2 نوعیت روحانی
3.4.2.1 نباتاتی (آٹھ)
3.4.2.2 طبعی
3.4.2.3 نفسانی
مدرکہ (حواس ظاہری و باطنی)
محرکہ (باعثہ،فاعلہ)
3.4.2.4 حیوانی
بارہ قوتیں: پانچ حواس باطنی (حافظہ، تواہمہ، ،حس سرک، خیال) ، پانچ حواس ظاہری (سامعہ، زائقہ، ، قوت شہوانی، قوت عقیدہ
آٹھ خادم: جازبہ، ماسکہ،ہاضمہ، ممیزہ، ذایقہ، مصورہ،مولدہ، متنمہ؟ قنسمہ(؟)
Mahmood Zaidi
‘s note on this شجرہ :یہ تمام اصطلاحات صوفیا کے یہاں رائج ہیں، ہر ایک اپنے اندر ایک جہان سمیٹے ہوئے ہے،
سرسری تم جہان سے گذرے
ورنہ ہر جا ، جہان دیگر تھا
درجنوں ماہرین فلسفہ و منطق نے سینکڑوں کتب اس میں سے ہر موضوع پر علیحدہ علیحدہ لکھ دی ہیں، پھر حسب استعداد و فہم و ادراک ان کی مخالفت اور تصدیق میں بے شمار کتب لکھی گئیں، صوفیا کا معاملہ اس لیئے مختلف رہا کہ وہ براہ راست تربیت لیتے اور سینہ بہ سینہ اس علم کو منتقل کرتے رہے، حافظ ابن قیم کی تصنیف کتاب الروح ہو ، امام محمد الغزالی رح کی کیمیائے سعادت ہو، علامہ محمد اقبال رح کی الہامی شاعری ہو، رومی، حالی، جامی، سعدی، اور بعض صورتوں میں مرزا اسد الله خان غالب کے اشعار ہوں ۔۔۔۔ مثلاً ۔۔۔
کچھ نہ تھا تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
وغیرہ وغیرہ ہوں۔۔۔۔۔
یہ سب ذخیرہ پڑھنے کے لیئے عمر تھوڑی ہے اور اب اس میں برکت ناپید۔۔۔
یہ عمر گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں
ہر حال میں مجھ کو یہی لگتا ہے کہ’ تم’ ہو
بہرحال، راہ سلوک کی منازل ہوں، تزکیہ کا باب ہو، صفائی قلب ہو، حواس ظاہری یا باطنی ہوں ، فنا بالذات ہو، نفی ذات ہو، مکاشفہ ہو، جبلت انسانی و حیوانی ہو، انتقال روح ، جبروت ، ملکوت ، لاہوت، ناسوت. ، عالم ارواح، عالم دنیا، عالم لا مکاں و ساعہ، چار سمتوں سے ستائیس سمتوں تک کا سفر، مرکب انسانی، کیمیا ، قوت رحمانی، روحانی، شیطانی، جمال، جلال، کمال، عین الیقین سے حق الیقین تک کا مرحلہ وار اور دیوانہ وار سفر، ہمہ اوست پھر ہمہ از اوست، وحدت الوجود، عرفان الٰہی، یہ سب علوم اسرار ہیں، علوم لدنی ہیں، اس کی ابتدا سورہ کہف میں موسیٰ و خضر کے قصہ میں موجود ہے، نہ جانے ابتدا کیا ہے اور انتہا کیا ہے۔۔۔۔
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
جو صفحہ آپ نے یہاں بھیجا ہے ، اس کے مندرجات کسی صوفی بزرگ کے مشاہدات، تجربات، مکاشفات، الہام اور مجاہدہ کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں، فیسبک پر ان میں سے کسی ایک اصطلاح پر بھی مکمل لکھنا ممکن نہیں، شاید بالمشافہ گفتگو یا کسی آن لائن سیشن میں کبھی کچھ گفتگو ہو پائے۔۔۔
والله اعلم بالصواب۔۔۔
Leave a Reply