Branding, Consumerism and Islamic Principles of Trade

مغربی کیپٹلزم کی اشتراکیت کو ضم کرنے کے بعد اس سے بڑی کیا کامیابی ہو گی کہ اس دو سو سال سے لڑنے والے مزہبی پیشوا خود کیپٹلسٹ کنزیومرزم کے سب سے بڑے داعی بن جائیں-


تاریخ میں کیپٹلزم سے لڑنے والے اب تک کے تمام نظام فکر لڑتے لڑتے خود کیپٹلزم میں ضم ہو گئے ہیں مثلاً اشتراکیت, 
 anarchist, socialist, religious and nationalist viewpoints, socialist tendencies (e.g. anarcho-syndicalism, social democracy and Bolshevism), philosophy of historical materialism, small-scale cooperatives and family businesses, and large-scale antitrust regulations,…. etc


 مغربی کیپٹلزم کی اس سے بڑی کیا کامیابی ہو گی کہ مغرب سے لڑنے والے اسلام کے پیشوا جو خود کو سید بادشاہ اور اسیر مالٹا کی روایات کے امین گردانتے ہیں وہ  خود کیپٹلسٹ کنزیومرزم کے سب سے بڑے حمایتی اور داعی بن کر سامنے آ رہے ہیں-
“We are all capitalists now!” 
Socialists admitted this after the implosion of Soviet Union & fall of Berlin Wall. Do Muslim scholars who have embraced capitalist consumerism can muster the moral courage to admit it too?
اپنے برانڈ کے پرچار کرنے والوں کو کس نے مجبور کیا ہے کہ اسلامی روایات اور سادگی کا درس دیں؟
کیپٹلسٹ برانڈنگ اور کنزیومرزم کا اسلامی روایات سے کیا تعلق ہے؟ ان کو کس نے مجبور کیا کہ سورۃ التکاثر میں ” الھاکم التکاثر”[1] کا درس دیں؟ ” لم یسرفوا” [2]  کا درس دیں؟ فویل.. الزین ہم یراءون “[3] کا درس دیں؟
احیاء العلوم میں غزالی نے cost plus pricing کے مقابلہ میں demand pricing (منہ مانگی قیمت) کے چند واقعات درج کئے ہیں جن سے اسلام کا مدعا ظاہر ہوتا ہے- جن میں بیچنے والا مُصِر تھا کہ اس سے مارکیٹ پرائس بہت زیادہ بڑھنے کے باوجود کم قیمت خرید پر جائز منافع کے ساتھ مارکیٹ سے کم cost plus پرائس پر خریدا جائے- [4]
مسئلہ تعیشات کو بیچنے، کاروبار کرنے یا پرائس فکسنگ  کا نہیں بلکہ مذہبی پیشوا کا سادگی کا درس دیتے دیتے اس کو برانڈ بنانا [5]، اس کا کنزیومرزم کے زریعے ان لوگوں میں ترغیب پیدا کرنا ہے جو افورڈ نہ کر سکتے ہوں.[6]، اور عوام کو خود نمائی اور دنیاوی دکھاوے کی ایسی دوڑ میں مبتلا کرنا ہے جو معاشرے میں ہیجان اور ڈپریشن پیدا کرتی ہے [7]، جو عوام میں ضرورت (needs) کا خواہشات (wants) سے فرق دور کر کے معاشرے میں زہنی بیمار پیدا کر رہی ہے [8] .. ..
References:
[1]…[7]

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *