شاہ محمد اسماعیل سلمہ
سائیکل والے کی گڈمڈ
شروع شروع میں چرچوں، چرچون، چوں چوں کی متواتر اور بے
ہنگم آوازوں کا ارتعاش اس کے کانوں کو سخت ناگوار گزرا تھا۔ رفتہ رفتہ انہی آوازوں
میں اسے ہم آہنگی محسوس ہونے لگی تھی اور یہ کیفیت صرف چند دنوں ہی رہ سکی تھی جب
تک کہ اسے یہ احساس رہا تھا کہ اس کی سائیکل میں ایک اور نئی خرابی پیدا ہوچکی ہے
اور وہ سہمے سہمے انداز میں کچھ دنوں سائیکل چلاتا رہا۔ اس خیال سے کہ مشین کی یہ
نئی آواز نہ جانے کب اور کس ڈھب سے چلتے چلتے اسے اترنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس کی
جیب میں آج کل پیسے بھی تو نہ ہوتے تھے۔ ۔۔۔۔جیب خالی اور کراچی کی طویل سڑکیں۔۔۔۔ایک
جگہ سے دوسری جگہ جانے کا اس کا واحد ذریعہ آخر اس کی یہی ٹوٹی پھوٹی پرانی سائیکل
ہی تو تھی اور اس میں یہ نئی تبدیلی۔۔۔۔ اسے پریشان کرنے کے لیے بہت کافی تھی۔ وہ
اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ نئی آواز خطرہ کا الارم ہے اور اس کا بند ہونا اب کسی نقصان
کی آمد پر ہی منحصر تھا۔ وہ جب بھی سائیکل پر بیٹھتا۔ یہ چرچوں، چرچوں، چوں چوں اس
کی توجہ کو اپنی جانب مرکوز کرلیتی اور وہ سر جھکائے اس آوازسے کان لگائے محتاط
ہوکر سائیکل چلاتا رہتا۔
اس دن بھی وہ اسی آواز پر کان لگائے سڑک کی اونچ نیچ کو
غور سے دیکھتا چلا جارہا تھا، چند خوبصورت کاریں سنسناتی ہوئی اس کی اپنی جانب سے
گزریں مگر وہ اپنی گردوپیش سے بے خبر سا چلا جارہا تھا۔۔۔ اس کی نظریں سڑک پر بچھی
ہوئی بجری کی کنکریوں پر جمی ہوئی تھیں، وہ ان کنکریوں کے درمیان سے سائیکل کا
اگلا پہیہ نکالتا ہوا چلا جارہا تھا۔ جیل کے چوراہے پر گھومتے ہی ایک ہوٹل پڑتا
ہے، اس ہوٹل کا مالک بھی عجیب و غریب آدمی ہے۔ ہر وقت ریڈیو کو پوری آواز سے بجاتا
رہتا ہے۔ کیا مضحکہ خیز حرکت ہے… اچھے خاصے گانے ناس ہوجاتے ہیں۔۔۔ اچھی خاصی
دھنوں کا مذاق بن جاتا ہے… لیکن ہوٹل کے شائقین تو گھوما کرتے ہیں۔ اس روز بھی
ریڈیو پاکستان سے محفل سماع کا پروگرام ہورہا تھا اور عبدالرحمن کانچ والا اپنی
مخصوص چیز گا رہا تھا۔ اس نے اسی وقت یہ شعر پڑھا تھا :
تجربہ ہے مجھے
اور وہ سائیکل
پر بیٹھے بیٹھے سوچنے لگا کہ یہ پوری غزل تو تصوف کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ بھلا
یہ شعر شاعر نے تصوف کے گہرے رنگ کے باوجود کس موڈ میں کہہ دیا ہوگا۔ بھلا کہاں
مجاز کی رنگ برنگی دنیااور کہاں تصوف کی والہانہ اور پُرخلوص پاک محفل… لیکن اس
نے پھر خود ہی اپنے اعتراض کی تشفی کر ڈالی کہ جو رنگ مجاز کا ہے وہی تو تصوف میں
بھی کارفرما ہے۔ اگر مجازی شاعری میں گل و بلبل کے استعارے اور حسن و عشق کے ربط و
سلوک کے مظاہرے ہیں تو تصوف کے رنگ میں بھی تو یہی جذبات، یہی واقعات اور حالات
نظر آتے ہیں۔ نیت عشق دونوں نشستوں میں ایک ہی ہے ، یعنی وصال…. اب آہستہ آہستہ
شاعر کا خیال اس پر واضح ہوتا جارہا تھا۔ پھر اسے یاد آیا کہ اسی غزل میں شاعر نے
ایک جگہ مصرع ثانی میں کہا ہے:
تو کوئی گناہ نہیں
اور اسی کے اولی
مصرع میں شاعر نے حضرت موسیٰ کی شوخی اور جسارت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انہوں نے
آخرکار ضد کرکے حجاب کو بے حجاب کیا۔ اب وہ ایک نئی ادھیڑ بن میں پھنس گیا کہ جب
ساری کی ساری غزل تصوف کے رنگ میں ہے تو یقینی اس کے ذہن میں گونجنے والا شعر بھی
تصوف سے ضرور تعلق رکھتا ہے۔ اب اس نے شعر کے پہلے لفظ “تعلقات” پر غور
کرنا شروع کیا۔ ۔۔۔اسے یاد آیا کہ سلوک تصوف میں شریعت کی اکملیت کے بعد جہاں سے
طریقت کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ پہلا سبق یہی تو ہے کہ انسان صفائے باطن، صفائے قلب
اور ضبط نفسی کرے اور اس کے حصول کے لیے اسے انواع و اقسام کی عزیز اور مرغوب و
دلپسند خواہشات ٹھکرانی پڑتی ہیں۔ مرغوب چیزوں کو ترک کرنا ہوتا ہے۔ لذتوں کے
احساس کو مٹا دینا ہوتا ہے اور یہی مشق رفتہ رفتہ بتدریج اور بڑھتے بڑھتے ترک
تعلقات کی ہمہ گیر وسعت کا جامہ پہن لیتی ہیں۔ انسان دنیا اور دنیا کی ہر موجودات
سے منہ موڑ لیتا ہے۔ یعنی تعلقات کا رشتہ توڑ دیتا ہے۔ چلیے یہاں تک تو تعلقات کی
بات اس کی سمجھ میں آگئی لیکن شاعر نے تو کچھ تعلقات کی تلخی کا تذکرہ کیا تھا
جبکہ عام خیال یہ ہے کہ تعلقات خوشگوار حالات کے ضامن ہیں پھر اسے محسوس ہوا کہ
شعر میں تعلقات کا لفظ اصطلاحی معنی میں نہیں مستعمل ہے بلکہ اس ایک لفظ نے علم
سینہ جب سے کتابوں میں منتقل ہوا، یعنی مولانا روم علیہ رحمۃ سے لے کر آخری دور کے
مستند صوفیائے کرام کے اخذ کردہ نتائج کی بنیاد کی حقیقتوں کو اپنے دامن میں چھپا
رکھا ہے۔ ہر صوفی نے کسی نہ کسی انداز بیان کے تحت اس طرف اشارہ کیا ہے۔ کسی نے
دنیا کو حقیر کہہ دیا اور وضاحت نہ کی، کسی نے صرف حکماً کہہ دیا کہ دنیا سے دل نہ
لگاؤ اور باعث اور علت پر یا تو اس وقت روشنی نہ ڈالی یا سمجھنے والے نہ سمجھے
لیکن یہ سب آخر کیوں ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر کس بات نے ان لوگوں کو اس نتیجہ پر
پہنچایا اور ذہن نے اس کے فوری جواب پیش کیا کہ”لا الٰہ”۔
اس جواب کو پاتے ہی اور “لا الٰہ” کو اس نئے
انداز میں دیکھتے ہی ایک سرخوشی کا جذبہ اس کے رگ
وپے میں سرایت کرگیا۔ اس نے اسی گرمی میں دو تین پینڈل ذرا زور سے چلا دیے
اور اس کے بعد پھر اسی ادھیڑ بن میں کھو گیا۔ آخر “لا الٰہ” جو کلمہ کے
حروفِ اول ہیں کیا انہی کو تھام کرصوفیائے کرام چلتے رہے ہیں۔ بے شک کیونکہ اگر
صرف “لا” کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے ہر چیز کے لیے کہہ
دیا کہ “لا” نہیں ہے۔ “الٰہ” کوئی معبود….. لیکن نہیں ہے
کوئی معبود کے معنی تو صاف ہیں کہ نہیں ہے کوئی معبود جس کی عبادت کی جائی۔ معبود
کی آخر عبادت ہی تو کی جاتی ہے اور ایک دم اسے اپنے اس خیال سے تکلیف پہنچی، اس کا
خیال فوراً اپنی علمی کم مائیگی کی طرف پہنچا کہ وہ معبود جیسے لفظ کے معنی سے
پوری طرح واقف نہیں۔۔۔ اس نے اسباب پر غور کیا کہ کیا وجوہات ہیں کہ آخر وہ تعلیم
یافتہ ہوتے ہوئے بھی معبود لفظ کے اصطلاحی معنی سے زیادہ اور کچھ نہیں جانتا اور
اگر جانتا بھی ہے تو وہی جو اس کے مولویوں نے وعظ اور تقریروں میں کہا۔۔۔۔ اللہ
ایک ہے۔۔۔ وہ بہت بڑا ہے۔۔۔ خدا سے ڈرو۔۔۔ خدا کا قہر نازل ہوتا ہے۔ خدا کا غضب
ٹوٹتا ہے اور اسے غصہ آنے لگا مولیوں پر کہ خدا کو نعوذباللہ ان لوگوں نے صرف کسی
قہار، جبار اور بھیانک سی صورت میں دیکھا ہے۔۔۔یا کبھی اور بھی کوئی پہلو انہیں
ہستی کے مزاج کا ان کی نظر میں نہیں آیا۔۔ اس نے ذہن پر انتہائی زور دیا لیکن اسے
ایک حوالہ بھی یاد نہ آیا جبکہ کسی مولوی نے خدا کو رحیم، معاف کرنے والا، درگزر
کرنے والا، شفیق محسوس کرانے کی کوشش کی ہو۔ اس نے اپنی علمی ناداری کی شکایت کا
جواز معلوم کرلیا تھا اور ایک دفعہ پھر وہ خوش ہوگیا۔ گویا اس نے بڑی بھاری ذہنی
الجھن سے نجات حاصل کرلی تھی۔ اس نے اب اپنا خود کا نظریہ خدا کے متعلق قائم کرنا
شروع کیا۔ خدا کیسا ہے؟ یہ سوال تھا جس کے جواب کو وہ ترتیب دینے کی کوشش کرنے
لگا۔ بہتیرے جوابات اور خدا کی تعریفیں اس کے ذہن میں دوڑنے لگیں۔ خدا شفیق ہے،
خدا مہربان ہے، خدا رحم دل ہے، خدا بہت محبت کرنے والا ہے، خدا میں ہر وہ خوبی ہے
جو کسی دل کو اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔۔۔ اور اسے پہلی مرتبہ اپنے دل میں خدا کی
صحیح عقیدت اور محبت محسوس ہونے لگی۔ جوں جوں وہ خدا کے اوصاف پر غور کرنے لگا اسے
خدا تو بڑی اچھی ہستی محسوس ہونے لگا۔ سوچتے سوچتے اسے خدا کے قہر و غضب کا خیال
آیا لیکن اب اسے وہ بھی اچھا لگنے لگا۔ اس نے سوچا۔ ٹھیک تو ہے محبت کرنے والا
شفیق آقا، ناراض بھی ہوسکتا ہے ، معاف بھی کرسکتا ہے اور سزا کے مستحق کو سزا بھی
دے سکتا ہے۔۔۔۔
پھر اس کے ذہن پر ہتھوڑا سا لگا جب اسے اسی خدا کو
مولویوں کے انداز بیان کے تحت محسوس کیا۔۔۔۔
اور اس نے محسوس کیا کہ ہمارے وہ بیشتر علماء جو کم مایہ
ہیں جن کے علوم وسیع نہیں ہیں، انہوں نے آخرکار اپنی جاہلیت سے خدا اورخدا کے بندوں میں کس قدر فاصلہ پیدا کردیا
ہے۔
سائیکل ایک گڑھے میں آکر چرچراتی اور اسے یاد آیا کہ وہ ٹیوشن پڑھانے آیا ہے اور
سامنے بچوں کا گھر نظر آرہا تھا۔ ۔۔اس کا ذہن چیخا کہ وہ شعر… وہ تعلقات کی تلخی
کا مسئلہ حل ہی نہیں ہوا لیکن یہ “لا الٰہ” کا مسئلہ بھی تو اہم ہے لیکن
اس کی اہمیت کا کیا تعلق، وہ تو تعلقات کی تلخی پر غور کر رہا تھا اور وہ تصوف..
وہ کیا تھا جو وہ سوچ رہا تھا…. اور سارے خیالات گڈمڈ ہوکر رہ گئے۔
Leave a Reply