اقبال کے مطابق کسی لیڈر یعنی “میر کارواں” کے رخت سفر کے لئے صرف تین ضروری خصوصیات ہیں: نگاہ بلند سخن دلنواز و جاں پرسوز، جن کے زریعے ایک راہنما اپنے پیچھے چلنے والوں کو جوڑ کر رکھتا ہے، ان کو منتشر نہیں ہونے دیتا:
نگاہ بلند سخن، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے – اقبال
مگر بدقسمتی سے حقیقت سے کوسوں دور جزبات برانگیختہ کر کے ہیرو بنانے والی سوشل میڈیا کے زریعے ایک ایسے شخص کو راہنمائی مل گئی جو ببانگ دہن اپنے کو “یوٹرن لیڈر” کہتا ہے- جس نے پچھلے چار سال میں اپنے کردار سے یہ واضح کر دیا کہ وہ اقبال کے بتائے ہوئے رخت سفر میں سے ہر ایک خصوصیت کا متضاد ہے:
(1) نگاہ بلند vs “میں ان کو نہیں چھوڑوں گا” والی زاتی مخاصمت سے شروع ہونے والی 2012 سے تکرار بالآخر 2018 میں وزیراعظم بننے پر منتج ہو گئی- مگر حضرت بجائے لوگوں کو اعلیٰ مقصد اور وژن والی نگاہ بلند سے ایسا نظام تشکیل دیتے جو بجائے زاتی انتقام کے اصولوں کی بنیاد پر قانون کے مطابق حرکت میں آتا- ایسا نظام جو بلا تخصیص انوسٹیگیشن کر کے، قابل عدالت ثبوت جمع کر کے جلد از جلد مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچاتا- مگر نیب، FIA اور ایجنسیز کو زاتی انتقام لینے کا زریعہ بنایا، من گھڑت الزامات پر اپنے دوستوں اور مخالفین کو حوالات کے اندر کر دیا، جو اب ثبوت کی عدم موجودگی پر چھوٹتے جا رہے ہیں- اب سوائے دھمکیوں کے کچھ دکھانے کو نہیں- 2012 کا اپوزیشن لیڈر اور چار سال کے وزیراعظم کی گفتگو اب تک ایک ہی ہے اور سر مو کوئی فرق نہیں آیا- ایسے راہنما کا کیا وژن، کیا اعلیٰ مقصد، اور کیا دین ایمان اور کسی وعدے کا کیا اعتبار جو یوٹرن کو لیڈرشپ کا جوہر سمجھتا ہو ہر وعدے کو یوٹرن کی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہو!
(2) سخن دلنواز vs گالم گلوچ، جھوٹ، تزلیل، تضحیک، الزامات، بہتان، کی بنیاد پر پراپگینڈا اور جھوٹ برگیڈ کو پانچویں پشت کی دوغلی ابلاغی جنگ کے سورماؤں نے ملک میں برداشت اور ریشنل ڈبیٹ کو ختم کر دیا- بجائے دل میں گھر کرنے والی گفتگو کے عامیانہ اور گلی کے غنڈوں کی طرح دھمکیوں پر انحصار ہے- ان دھمکیوں سے اپنے اور پرائے دونوں ان کے ہدف پر ہیں-
(3) جاں پر سوز ( empathy) vs احسان فراموشی؛ ہر دوست، سلیکٹر، میڈیا سپورٹرز، ووٹر کے لئے خطرے ناک:
جو شخص اپنے دیرینہ جگری دوست، محرم راز اور ابتلاء نعیم الحق کے 2020 میں کراچی جنازہ میں توہم پرستی کی وجہ سے شرکت نہیں کرتا، جو محسن بیگ، جہانگیر ترین وغیرہ کے احسانات بھلا دیتا ہے اور من گھڑت الزامات لگا کر گرفتار کر لیتا ہے اور محسنوں کو جانور کہتا ہے وہ ان الیکٹیبلز کو کہاں خاطر میں لائے گا جو چڑھتے سورج کے پجاری ہیں اور جن کے کہنے پر پی ٹی آئی میں آئے ان ہی کے اشارہ پر جا رہے ہیں-
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واللہ تم اٹھ کے آ نہ سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں- قمر جلالوی
Leave a Reply